Republic Day Speech in Urdu | یوم جمہوریہ پر شاندار تقریر
26 جنوری یوم جمہوریہ کیوں منایا جاتا ہے؟
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِين وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَى النَّبِيِّ الْاَمِين، وَعَلٰى آلهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِينَ، إِلٰى يَوْمِ الدِّيْن، اَمَّا بَعْد! فأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيمِ بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَآءُ مُتَشَٰكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ۔صَدَقَ اللهُ الْعَظِيْم۔
خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں، تو کچھ بھی نہیں
سامعین کرام! حاضرین جلسہ، عزیزان گرامی قدر اور فرزندان اسلام! آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں،ایک 15/ اگست جس میں ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا، دوسرا 26 / جنوری جس میں ملک جمہوری ہوا یعنی اپنے ملک میں اپنے لوگوں پر اپنا قانون لاگو اور نافذ ہوا اپنا قانون بنانے کیلئے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29 / اگست 1947 کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جسکو ملک کا موجودہ قانون مرتب کرنے میں 2 / سال 11 / ماہ اور 18 / دن لگے ، دستور سازا اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہر شق پر کھلی بحث ہوئی
پھر 26 / نومبر 1949 کو اسے قبول کر لیا گیا اور 24 / جنوری 1950 / کو ایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پر دستخط کر دیا البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوے دستور کے ڈرافٹ پر ایک نوٹ لکھا کہ “یہ دستور برطانوی دستور کاهی اجراء اور توسیع ہے جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ھند کا مقصد پورا نہیں ہوتا” بہر حال 26 / جنوری 1950 کو اس نئے قانون کو لاگو (نافذ) کر کے پہلا یوم جمہوریہ منایا گیا ، اس طرح ہر سال 26 / جنوری “جشن جمہوریت ” کے عنوان سے منایا جانے لگا اور 15 اگست 1947/ کی طرح یہ تاریخ بھی ملک کا قومی اور یاد گاری دن بن گئی ۔ یہ تو 26 / جنوری کی بات ہوئی اب آئیے یہ سمجھیں کہ اس روز جمہوریت کے نام پر جشن کیوں مناتے ہیں ؟
قارئین کرام: بہار اور جشن کا یہ دن ایک دو انگلی کٹا کر نہیں ملا، ایک دو سال احتجاج کر کے نہیں ملا اگر آپ 1857 کی بغاوت سے تاریخ کا حساب کریں گے تب بھی 1947 تک 90 سال بنتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ 18 ویں صدی میں مغل سلطنت کے زوال سے انگریزوں کو عروج ملا مگر انگریزوں کا پہلا جہاز 1601 میں دور جهانگیری میں ہی آچکا تھا اس حساب سے ہندوستان جنت نشان سے انگریزوں کا انخلاء 47 / میں 346 / سال بعد ہوا، اس دوران کی ایک طویل داستان لکھی گئی جسکا ہر صفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لت پت ہے، جذبہ آزادی سے سرشار اور سر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب کی بقاء کیلئے بے خطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان صف اول میں تھے، جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانی الگ کر دیں تو ہندوستان کبھی آزاد نہ ہو گا اور تاریخ آزادی هند کے ساتھ انصاف نہ ہوگا۔
آزادی ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ اٹھا کہ ملک کا دستور کیسا ہو؟ مذھبی ہو یالا مذھبی ؟ اقلیت واکثریت کے درمیان حقوق کس طرح طے کئے جائیں؟ آزادی کے بعد ملک میں سیکولر جمہوری نظام نافذ کرانے میں جمعیت علماء هند کارول نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، جمعیت کے ناظم عمومی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے بحیثیت رکن دستور ساز اسمبلی اقلیتوں کو مراعات دلانے میں نمایاں حصہ لیا۔
آئین ھند کے ابتدائی حصے میں صاف صاف یہ لکھا گیا ہے کہ ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری هندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادی خیال، اظہار راے، آزادی عقیده و مذهب و عبادات، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکھا جائیگا”
1947/ میں اندرا گاندھی نے دستور کے اسی ابتدائیہ میں لفظ “سیکولر” کا اضافہ کیا، ہندستانی جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے اس میں مختلف افکار و خیالات اور تہذیب و تمدن کے لوگ بستے ہیں اور یہی تنوع اور رنگارنگی یہاں کی پہچان ہے۔26 جنوری کو اسی مساوی دستور و آئین کی تائید میں اور کثیر المذاھب کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پر ناز کرنے کے لئے “جشن جمہوریت” اور “یوم جمہوریت” منا کر شہیدان ملک اور آئین کے بانیین ومرتبین کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے،
لیکن لیکن قارئین: جشن جمہوریت کی یہ بہار یونہی نہیں آئی ہندستان میں جمہوری نظام لانے اور انگریزی تلسط ختم کرنے کی جد و جہد بڑی طویل ہے آزادی کا یہ سفر کوئی آسان نہیں تھا۔ داستان حریت بڑی دلدوز ہے میں مختصرا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
1498/ میں پرتگال (یورپ) والے ایک عربی ملاح “واسکوڈی گاما” کی مدد سے پہلی مرتبہ بحری راستے سے ہندوستان پہنچے اور کلکتہ سے اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ایک عرصے تک خوب منافع کمایا، انکی دیکھا دیکھی یورپ کے دوسرے ممالک مثلا ہالینڈ، اور انگلستان والوں نے بھی ہندوستانی دولت لوٹنے کا پلان تیار کیا، چنانچہ انگلستان کے 101 / تاجروں نے 30 ہزار پونڈ (انگریزی روپے) جمع کر کے “ایسٹ انڈیا کمپنی” کے نام سے ایک کمپنی بنائی اور 1601 میں انکا پہلا جہاز ہندوستان آیا اس وقت ہندوستان میں جہا نگیر بادشاہ کی حکومت تھی (یہ اکبر بادشاہ کا لڑکا تھا اس کا اصل نام سلیم نورالدین اور لقب جہانگیر تھا)
اس نے انگریزوں کا خیر مقدم کیا لیکن انگریزوں کو باقاعده تجارت کی اجازت جہانگیر کے دوسرے لڑکے شاہ خرم (شاہجہاں) نے دی ، رفتہ رفتہ اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا (یعنی مال کی جگہ ہتھیار اور . ملازم کی آڑ میں فوجیوں کی آمد) لیکن مرکز میں مغلیہ سلطنت اس قدر مضبوط تھی کہ انگریزوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ، شاہجہاں کے دوسرے لڑکے اور نگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی، اٹھار ہوئیں صدی میں مغلیہ سلطنت کی عظمت کا سکہ کمزور ہوتے ہی طوائف الملو کی کا دور شروع ہو گیا،
عیار اور شاطر انگریزوں نے پورے ملک پر قبضے کا پلان بنالیا ہندوستانیوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا منصوبہ طے کرلیا، انکے خطرناک عزائم اور منصوبے کو بھانپ کر سب سے پہلے میدان پلاسی میں جس مرد مجاہد نے انگریزوں سےمقابلہ کیا اور 1757 / جام شہادت نوش کیا وہ شیر بنگال نواب سراج الدولہ تھا، پھر 1799 سرنگا پٹنم میں انگریزوں کا مردانہ وارمقابلہ کرتے ہوئے شیر میسور سلطان ٹیپو نے ملک پر جان قربان کردی، جسکی شہادت پر انگریزفاتح لارڈ ہارس نے فخر و مسرت کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ”آج ہندوستان ہمارا ہے” واقعتًا انکے مقابل اب کوئی اور نہیں تھا دہلی تک راستہ صاف تھا، 1803/ میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ اندازمیں داخل ہوئی اور بادشاہ وقت “شاہ عالم ثانی ” سے جبرًا لکھوایا کہ “خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا” یہ بات اس قدر عام ہوگئی کہ لوگ کہنے لگے “حکومتِ شاہ عالم از دہلی تاپالم “
یہ معاہدہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ ہندوستان سے اب اسلامی اقتدار ختم ہو چکا ہے ، وحشت و بربریت، ظلم وستم کی گھنگھور گھٹائیں پوری فضا کو گھیر چکی ہیں ، وطنی آزادی اور مذہبی شناخت ان کے رحم وکرم پر ہوگی، ایسے بھیانک ماحول اور پر فتن حالات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیٹے شاہ عبد العزیز دہلوی نے پوری جرئت و بیباکی کے ساتھ فتوی جاری کیا کہ “ہندوستان دارالحرب ہے” ۔ یعنی ملک اب غلام ہو چکا تھالہذا بلا تفریق مذہب و ملت ہر ہندوستانی پر انگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے۔ان کے فتوی کی روشنی میں علماء کھڑے ہوئے، سید احمد شہید اور اسماعیل شہید رحمہما اللہ آگے بڑھے، پورے ملک کا دورہ کر کے قوم کو جگایا اور ہر طرف آزادی کی آگ لگادی اور 1 183 / کو بالا کوٹ کی پہاڑی پر لڑ کر جام شہادت نوش کیا،
دھیرے دھیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف ماحول بننے لگا، انگریزوں کے مظالم کوئی ڈھکے چھپے نہ تھے چنانچہ میلکم لوئین جج عدالت عالیہ مدراس و ممبر کونسل نے لندن سے اپنے ایک رسالہ میں ظلم و بربریت پر لکھا تھا “ہم نے ہندوستانیوں کی ذاتوں کو ذلیل کیا انکے قانون وراثت کو منسوخ کیا، بیاہ شادی کے قاعدوں کو بدل دیا، مذہبی رسم ورواج کی تو ہین کی، عبادت خانوں کی جاگیریں ضبط کرلیں، سرکاری کاغذات میں انھیں کافر لکھا، امراء کی ریاستیں ضبط کر لیں، لوٹ سے ملک کو تباہ کیا، انھیں تکلیف دیگر مالگزاری وصول کی، سب سے اونچے خاندانوں کو برباد کر کے انھیں آوارہ گرد بنا دینے والے بندوبست قائم کیے” (مسلمانوں کا روشن مستقبل ص 110)
1857/ میں پھر دہلی کے چونیتیس علماء نے جہاد کا فتوی دیا جس کی وجہ سے معرکہ کارزار پھر گرم ہو گیا دوسری طرف انگریزی فوجیں پورے ملک میں پھیل چکی تھیں اور ہندوستان سے مذہبی بیداری و سرگرمی ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے بے شمار عیسائی مبلغین (پادری) کو میدان میں اتار دیا تھا جسے انگریزی فوج کی پشت پناہیحاصل تھی جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کا پرچار کرتے، اسی دورانیہ خبر گشت کرنے لگی کہ انگریزی حکومت نے ہندو مسلم کا مذہب خراب کرنے کے لئے اور دونوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کیلئے آٹے میں گائے اور سور کی ہڈی کا بُرادہ ملا دیا ہے، کنویں میں گائے اور سور کا گوشت ڈلوادیا ہے، ان واقعات نے ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی ایک آگ لگادی، انکی ان مذہب مخالف پالیسیوں کی وجہ سے انگریزی فوج میں ملازم ہندو مسلم سب نے زبر دست احتجاج کیا، کلکتہ سے یہ چنگاری اٹھی اور دھیرے دھیرے بارک پور، انبالہ، لکھنو، مراد آباد اور سمبھل وغیرہ پہنچتے پہنچتے شعلہ بن گئی۔
احتجاج کرنیوالے سپاہی اور انقلابی منگل پانڈے اور انکے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی، اور جہاں جہاں احتجاج ہوا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سخت قوانین بنادئے گئے ،احتجاجیوں کی بندوقیں چھین لی گئیں، وردیاں پھاڑ دی گئیں، دوسری طرف 1857 / میں ہی جبکہ ہر طرف بغاوت کی لہریں پھوٹ چکی تھی لوگ ادھر ادھر سے آکر حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی قیادت میں انگریزوں سےمقابلہ کے لئے بے تاب تھے،بانی دارالعلوم دیوبند مولاناقاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی،مولانا منیر وحافظ ضامن شہید رحمھم اللہ بطور خاص حاجی صاحب کی قیادت میں شاملی کے میدان میں انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے
دوسری طرف جگہ جگہ بغاوت پھوٹنے کے بعد زیادہ تر انقلابی فوجیوں نے دہلی کا رخ کیا اور جنرل بخت خان کےساتھ ملکر پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ دہلی شہر اور مغلیہ حکومت کا دفاع کرتے رہے،نانا صاحب، تاتیا ٹوپے، رانی لکشمی بائی، رانا بینی، مادھو سنگه و غیرہ بھی پیش پیش تھے ، مگر انگریزوں کی منظم فوج کے سامنے بغاوت ناکام ہوگئی اور انگریزوں نے 20 / ستمبر 1857 کو لال قلعہ پر باقعدہ قبضه کرلیا اور سلطنت مغلیہ کے آخری چراغ بہادر شاہ کو گرفتار کر کے رنگون (برما) جلا وطن کر دیا گیا۔
قارئین کرام:ستاون کی بغاوت جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا تھا ناکام ہونے کے بعد انگریزوں نے ظلم و ستم کی جو بجلیاں گرائی ہیں ( الامان والحفیظ ) چونکہ مسلم عوام اور علماء صف اول میں تھے اس لئے بدلہ بھی ان سے خوب لیا گیا، مولویت بغاوت کے ہم معنی قرار دے دی کی ایسٹ انڈیاکمپنی کیطرف سے یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ لمبی داڑھی اور لمبے کرتے والے جہاں بھی ملے تختہ دار پر چڑھا دیا جائے، قتل و پھانسی کا یہ سلسلہ تقریبا دو هفتہ چلتا رہا، ایک ہند و مورخ میوارامگپت کے بقول “ایک اندازے کے مطابق 1857 میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں” ایڈورڈ ٹائمس کی شہادت ہے کہ صرف دہلی میں 500 / علماء کو تختہ دار پر لٹکایا گیا (ابھی تک گاندھی جی یا کانگریس کا وجود نہیں ہے کیونکہ گاندھی جی 1869 میں پیدا ہوئے تھے)
30 / مئی 1866 / کو اکابرین امت اور یہی بچے کھچے مجاہدین نے دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر “دارالعلوم دیوبند” کے نام سے مشہور ہوا،
1878/ میں اسی دسگاہ کے ایک فرزند مولانامحمود حسن دیوبندی نے (جو آگے چکر ” شیخ الھند ” کے نام سے مشہور ہوئے انگریزوں کے لئے مسلسل درد سر بنے رہے۔
“تحریک ریشمی رومال یا تحریک شیخ الهند” بزبان حکومت برٹش “ریشمی خطوط سازش کیس” انھیں کی پالیسی کا حصہ تھی ) ” ثمرۃ التربیت” کے نام سے ایک انجمن قائم کی جس کا مقصد انقلابی مجاہدین تیار کرنا تھا۔
1885/ انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد ڈالی گئی ، کچھعرصہ کے بعد لوک مانیہ بال گنگادھر تلک نے “سوراج ہمارا پیدائشی حق ہے” کا نعرہ بلند کیا اور 1909 / میں “جمعیۃ الانصار” کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی جسکے پہلے ناظم مولانا عبید اللہ سندھی منتخب ہوئے اور 1911 / یا 12 / میں مولانا ابوالکلام آزاد نے کلکتہ سے الھلال اخبار کے ذریعہ آزادی کا صور پھونکا۔
1915/ میں ریشمی رومال کی تحریک چلی 1916 میں ہندو مسلم اتحاد کی تحریک چلی اور 1919 میں دہلی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا اور اسی جلسے میں باضابطہ “جمعية علمائے ہند ” کی تشکیل ہوئی جسکے پہلے صدر مفتی کفایت اللہ صاحب منتخب ہوئے۔
1919 /میں ہی امرتسر کے جلیاں والا باغ کے ایک جلسے میں انگریزوں کی فائرنگ سے ان گنت ہندو مسلم کا خون بہا۔
1920/ میں شیخ الھند نے ترک موالات کا فتوی دیا جسے مولانا ابو المحاسن سید محمد سجاد بہاری نے مرتب کرکے جمعیت کی طرف سے شائع کیا،
1921/ میں مولانا حسین احمد مدنی نے کراچی میں پوری جراتکے ساتھ اعلان کیا کہ ” گور نمنٹ برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے”
1922/ میں ہندو مسلم اتحاد ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے شدھی اور سنگھٹن تحریکیں شروع کیں جسکی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات پھوٹے۔
1926/ کلکتہ میں جمعیت کے اجلاس میں جسکی صدارت مولانا سید سلیمان ندوی نے کی مکمل آزادی کی قرارداد منظور ہوئی۔
1929 اور 30 / میں گاندھی جی نے “ڈانڈی مارچ اور نمک ستیہ گرہ (نمک سازی تحریک) چلائی۔
1935/ میں حکومت ہند کا ایک دستور بنایا گیا۔
1939/ میں دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی۔
1942/ میں “انگریزو! ہندوستان چھوڑو” تحریک چلی، بالآخر برٹش سر کارجھکی اور 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہو گیا۔
المختصر: وطن عزیز کو آزاد کرانے میں زبر دست قربانیا پیش کی گئی اور ظلم و بربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی جسکا ہر صفحہ ہندوستانیوں خصوصا مسلمانوں کے خون سے لت پت ہے، جزبہ آزادی سے سرشار اور سر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب کی بقاء کے لیے بے خطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان صف اول میں تھے۔
قارئین ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جانے میرے وطن کو کس کس کی نظر لگ گئی ہے کہ پورے ملک میں بدامنی بے چینی بڑھتی جارہی ہے، کچھ لوگوں کو یہاں کا میل جول ہندو مسلم اتحاد بالکل پسند نہیں ہے، حالانکہ یہاں مختلف افکار وخیالات اور تہذیب و تمدن کے لوگ بستے ہیں اور یہی تنوع اور رنگا نگی یہاں کی پہچان ہے۔
چندفرقہ پرست عناصر ہیںجنہیں ملک کی یکتائی اور اسکا سیکولر نظام بالکل پسند نہیں وہ ساری اقلیتوں کو اپنے اندر جذب کرنے یا بالکلیہ انکا صفایا کرنے یا ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تبدیل کرنے کیلئے بے تاب ہیں،
بڑے تعجب کی بات ہے جنکا جنگ آزادی میں کوئی رول نہیں، وطن کی تعمیر میں کوئی کردار نہیں بلکہ انکےسروں پر سروں پر بابائے قوم گاندھی جی کا خون ہو، جس کی پیشانی پر مذہبی تقدص کو پامال کرنے کا کلنگ ہو اور جسکے سروں پر ہزاروں فسادات، لاکھوں بے قصور انسانوں کے قتل اور اربوں کھربوں کی تباہی کا قومی گناہ ہو اسکے نظریات کی تائید کیسے کی جاسکتی ہے؟ اور کیا ایسے لوگوں کے ہاتھ اقتدار دیگر ملک کی بے مثال جمہوریت اور خوبصورت نظام کے باقی رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ جبکہ ملک اس وقت ایک تلخ تحربے سے گزر رہاہے۔
عنقریب یب ملک بھر میں حتی کہ مدارس میں بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ 73/ واں جشن جمہوریت منایا جائیگا، ائے کاش آئین کے تحفظ اور جمہوری اقتدار کی بقا پر قسمیں کھائی جاتیں، نفرت بھرے ماحول کو امن و بھائی چارے سے بدلنے کی بات کی جاتی، مساویانہ آئینی حقوق کو یقینی بنایا جاتا، ملک دشمن عناصر کو پابند سلاسل کیا جاتا ؟،
اے کاش گنگا جمنی تہذیب کی لاج رکھی جاتی، اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والی زبانوں پر بریک لگائی جاتی ، نانک و چشتی، کے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کا عزم کیا جاتا،
اور کیاکیا بولوں۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ علامہ کے اس شعر سے اپنی بات کو ختم کروں
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا