جشن آزادی پاکستان – Speech on Jashn e Azadi Pakistan

جشن آزادی پاکستان – Speech on Jashn e Azadi Pakistan

صدر گرامی قدر! آج کی محفل میں میرا موضوع تقریر ہے۔ میں اپنی پہچان کی تلاش میں تحریک پاکستان کے ایمان آفریں

دور میں داخل ہوتا ہوں۔ ایک طرف برطانوی طاغوت ہے جو ہزاروں برس حکومت کرنے کا اعلان کر رہا ہے دوسری طرف ہندو سامراج ہے جو مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینے پر تلا ہوا ہے۔ ان دو عفریتوں کے درمیان میرا سیم قائد محمد علی جناح مسکرا رہا ہے۔ اس کی پیشانی پر فتح عظیم کی بشارت لکھی ہے۔ وہ اتحاد تنظیم اور ایمان کا اسلحہ لے کر وقت کی بلندیوں پر ابھرتا ہے۔ اس کی آواز وقت کا سینہ چیر کر ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن جاتی ہے۔ ملت اسلامیہ کے تمام اسلامیہ کا ہر اول دستہ بن جاتے ہیں۔ غیرت مند فرزندان توحید کے پہلو بہ پہلو میرے جیسے لاکھوں طلبہ بھی اس

اور جناب صدر! ایسے ہمت آفریں دور میں ایک برطانوی نما قائد سے پوچھتا ہے کہ پاکستان کب وجود میں آئے گا

تو میرے قائد کا یہ جواب تاریخ کی انمٹ گواہی بن جاتا ہے کہ پاکستان تو اس وقت ہی معرض وجود میں آ گیا تھا جب برصغیر میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا“۔ یہ میرے قائد کا جواب ہی نہیں تھا بلکہ تقدیر کا فیصلہ تھا۔ ایسا فیصلہ جس نے پاکستان کی صورت میں ملت اسلامیہ کو اس کی پہچان عطا کر دی۔ جناب والا! پاکستان محض ایک ملک کا نام نہیں بلکہ ایک عظیم نظریہ کی سربلندی کا پیغام ہے۔ یہ فقط ایک خطہ زمین نہیں بلکہ یہاں کا ذرہ ذرہ اسلامی غیرت کا امین ہے۔ یہ صرف ایک ریاست نہیں بلکہ خدائے قدوس کی عظیم امانت ہے۔ صدر ذی وقار! پاکستان ہماری پہچان ہے۔ اس عظیم سرزمین نے ہمیں کیا کچھ عطا نہیں کیا۔ اقوام عالم میں بلند رتبہ عطا کیا۔ باطل سے ٹکرانے کا حوصلہ بخشا۔ باوقار زندگی کا اسلوب اور غیرت ایمانی کا شعور بخشا۔ جغرافیائی تحفظ اور نظریاتی شکوہ عطا کیا۔ تہذیب کا حسن اور تمدن کا وقار عطا کیا۔ اسلامی قلعہ بن کر ہماری حفاظت کی۔ صنعت و حرفت کی ترقی اور معیشت کا وقار بخشا۔ جوہری توانائی کا اعزاز بخش کر ہمارے مستقبل کو محفوظ کر دیا۔ کا حق تو یہ ہے کہ مقدس سر زمین اللہ کا احسان ہے اس کی حرمت پر ہماری جان بھی قربان ہے ملک و ملت کے تحفظ کو یہی اعلان سب سے اعلیٰ سب سے پہلے اپنا پاکستان ہے جناب والا! اپنی پہچان کے عزیز نہیں ہوتی۔ پہچان کھو جائے تو اقوام حالات

کے رہگزاروں میں گم ہو جاتی ہیں۔ اور اس مملکت خداداد کی پہچان اسلام ہے۔ وہ

اسلام جس نے بزم عالم میں چودہ صدیاں قبل پہلی مرتبہ اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی

تھی۔ وہ اسلامی سلطنت جس کا دارالخلافہ مدینہ منورہ تھا اور جس کی وسعتیں شام ابد

تک وسیع تھیں۔ وہ اولین اسلامی حکومت جس کے خدو خال محبوب دو عالم حضور محمد مصطفی ملا ایم نے ابھارے تھے۔ وہی اولین اسلامی سلطنت پاکستان کا آئیڈیل ہے۔ وہ اسلامی سلطنت جس کا منشور قرآن حکیم کی صورت میں وقت کے کوہ فاران پر طلوع ہوا تھا۔ اس پہچان کو قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ پیش نظر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب بابائے ملت سے ایک انگریز صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو قائد اعظم نے دوٹوک انداز میں فرمایا تھا کہ

پاکستان کا دستور تو چودہ صدیاں قبل وجود میں آچکا ہے اور وہ ہے قرآن مجید جناب صدر! پاکستان اسی عظیم نظریاتی سربلندی کی عصر حاضر میں تشکیل نو

ہے۔ علامہ اقبال نے اسی لئے فرمایا تھا کہ ے اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی جناب والا! آج وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی شناخت کو بصد افتخار اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جائے۔ پاکستان سے فکری اور عملی پجہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔ جب آندھیوں کی آمد ہوتی ہے تو کمزور سے کمزور پرندہ بھی اپنے آشیانے کی حفاظت کرتا ہے اور میرا پاکستان تو لطف و رحمت کا سائبان ہے۔ راحت زندگی اور مونس بھی آئے۔ قلب و جان ہے۔ ہم کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ اس پر معمولی سی 

آج ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ تیرے نام پر

تیرے اعزاز پر تیرے پیغام پر

تیرے اقبال پر تیرے انعام پر

جاں لٹا دیں گے ہم دین اسلام پر

سرزمین وطن سرزمین وطن

صدر ذی وقار! پاکستان کی صورت میں ہماری یہ ملی شناخت آسانی سے عطا

نہیں ہوئی۔ لاکھوں شہداء نے اپنا مقدس لہو اس ارض پاک کے وجود کی خاطر نذر

کیا۔ بے شمار خواتین اسلام نے اپنی عصمتوں کے آبگینے پاکستان کی عظمت پر نثار

کر دیئے۔ معصوم بچے نوکوں پر اچھالے گئے۔ بزرگوں نے اپنی زندگیوں کا قیمتی اثاثہ پاکستان کے تقدس پر قربان کر دیا۔ اس سرزمین کے ذرے ذرے سے فدایان اسلام کے پاکیزہ خون کی مہک پھوٹتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سرزمین ہمیں مانند حرم عزیز ہے۔ یہ ہمارا فکری و عملی سرمایہ ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی آنکھوں کا نور بھی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ارض عظیم عطا کر کے رب کریم نے اسلامیان ہند ہی کو نہیں بلکہ زمانے بھر کے فرزندان توحید کو شوکت ایمان کا قلعہ عطا کیا ہے۔ محترم حاضرین! آج باطل قوتیں پھر ہماری ایمانی غیرت کو للکار رہی ہیں۔ ہماری بہادر افواج وطن عزیز کی پاسبان ہیں۔ ہمیں نظریاتی محاذ پر ایمانی جلال کے ساتھ ڈٹ جانا چاہیے۔ ہم قائد اعظم کے سپاہی علامہ اقبال کے شاہین ہیں۔ طالب علموں نے پاکستان بنایا تھا تو اسے بچانا بھی جانتے ہیں۔ میں اہل وطن تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ خدارا ایک ہو جائیں۔ ہم پنجابی سندھی، بلوچی اور پٹھان نہیں بلکه اول و آخر سب مسلمان پاکستانی ہیں۔ اگر پاکستان سلامت ہے تو عظمت اسلام کا قلعہ سلامت ہے۔ اگر پاکستان سربلند ہے تو ہماری پہچان بھی زندہ ہے۔ اگر پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں تو ہمارا مستقبل تابندہ ہے۔ اگر توحید کی یہ امانت سلامت ہے تو عالم اسلام کی امیدوں کی تابندگی ہمیشہ بر قرار ر ہے ہی۔ کی پہچان پاکستان کے نام پر میں اس پیغام کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ ارے ارض پاک تیری حرمت عزیز تر ہے

تو روح زندگی ہے تو عزم معتبر ہے

ظلمت کدوں میں تو ہی تو غازہ سحر ہے پیغام آگہی ہے نور دل و نظر ہے اپنے عمل سے تجھ کو ہم نکھار دیں گے سو بار تجھ پہ اپنی ہم جان وار دیں گے

14 اگست یوم آزادی پاکستان پر تقریر

Leave a Comment