اسلام کیا ہے، اسلام کے احکام ہے؟ Islam Kya Hai in Urdu

اسلام کیا ہے، اسلام کے احکام ہے؟ Islam Kya Hai in Urdu

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ میں ہوں محمد اسعد اور میری ویب سائٹ دینیات مکتب (deeniyat maktab) پر آپ کا خیر مقدم ہے۔ پیارے دوستوں آپ کیسے ہو؟ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے، اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھیں ۔اسلام کیا ہے؟۔

پیارے اسلامی بھائیوں ! کیا آپ اسلام اور قومی یکجہتی عنوان پر اسلام کے احکام کو جاننا چاہ رہے ہیں؟ یا اسلام کیا سکھاتا ہے؟ اور اسلام کیا کہتا ہے؟ اسلام کیا ہے حدیث  جاننا  چاہ رہے ہیں؟  (Islam Kya Hai in Urdu)  تو آپ صحیح جگہ پر ہیں، آپ یہاں سے اسلام اور جمہوریت اور اسلام اور غیر اسلامی تہذیب پر دین اسلام کے بارے میں  تفصیلی مطالعہ کرسکیں گے۔

اسلام اور قومی یکجہتی-Qaumi yakjehti Speech in Urdu

عزیزانِ قوم و ملت! آج کے اس دور میں سیاسی لیڈروں، مفکروں، دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں ، قلم کاروں، انشاء پردازوں ، کالم نگاروں، مقروں، خطیبوں کی زبان پر قومی یکجہتی کالفظ اکثر سنائی دیتا ہے، تو کیوں نہ ہم بھی قومی یکجھتی پر اسلام کی روشنی میں بحث کریں اور دیکھیں کہ اس موضوع پر اسلام کیا کہتا ہے ؟ اس ضمن میں اسلام کا کیا نظریہ ہے ؟

برادرانِ اسلام! قومی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ مختلف قوموں نسلوں کے لوگوں کو ایک فکر و نظر پر جع کر دیا جائے تا کہ ان کے اندر وحدت و اجتماعیت کی کیفیت پیدا ہو اور ٹکراو کی کیفیت نہ پیدا ہو، اختلافات نہ جنم لیں ، تنازعات نہ ابھریں ، تشاجرات نہ ظاہر ہوں،

یعنی قومی یکجہتی کو ہم اتحاد الامم کہ سکتے ہیں، اور جب سیاسی نظریے کی بنیاد پر قومی یکجہتی کی باتیں ہوتی ہیں تو عام طور پر سیاسی لیڈران اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ مختلف خیالات و نظریات کے افراد ایک طرز زندگی کو اختیار کرلیں اور اپنی اپنی فکری و مذہبی خصوصیات کے باوجود ایک بن کر رہیں، اس کے لئے یکساں سول کوڈ کا نام لیا جتا ہے، تو کبھی یکساں یونیفارم کی گفتگو ہوتی ہے۔

لیکن دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ درحقیت قومی یکجہتی کا فطری انداز اسلام کے نظریہ اتحاد میں جلوہ گر نظرآتا ہے، اسلام نے اقوام عالم کو ملک وطن ، قوم نسل، رنگ و روپ کے اختلاف کے باوجود جس فطری طریقہ پر متحد ہونے کی دعوت دی ہے وہ بانکپن کسی دوسرے مذہب کی تعلیمات میں نظر نہیں آتا۔

اگر ہم قومی یکجتی اور ہندو دھرم پر بحث کریں تو اندازہ ہوگا کہ اس دھرم کی اساس ہی فرقہ واریت اور طبقاتی نظام پر ہے، اس مذہب نے انسان کے در میان امتیاز و تفریق قائم کر کے انکو متحد ہونے سے روک دیا ہے، پھر یکجہتی کیونکر ہو سکتی ہے۔ہندو مت نے انسان کے چار طبقے مقرر کئے ہیں،

(1) برهمن

(۲) چھتری

(۳) ویش

(۴) شودر

سب سے اعلی نسل پر برہمن ہے جس کے ذمہ مذہبی امور کی انجام دہی ہے،چھتریوں کے ذمہ حکومت ہے، ویش کے سپر کھیتی باڑی ہے اور شودر سب سے حقیر وذلیل ہے۔

برہمن برہمہ کے سر سے پیدا ہوئے، چھتری سینے سے پیدا ہوئے، ویش پیٹ سے پیدا ہوئے، شودر پاؤں سے پیدا ہوئے، جب مذہب نے خود تقسیم کر دی تو پھر سب ایک سمت کیسے مل سکتے ہیں، ایک جہت پر کیسے قائم رہ سکتے ہیں۔ ایک نظر یہ پرکیونکر متحد رہ سکتے ہیں؟

مگر مذہب اسلام انسان کو تقسیم نہیں کرتا، قومیت اور وطنیت کو معیار نہیں قرار دیتا، رنگ وروپ میں امتیاز نہیں کرتا ، ملک و وطن کا تفاوت نہیں مانتا بلکہ وہ تو انسان کو ایک فرد تسلیم کرتا ہے اور ایک ماں باپ کی اولاد کہہ کر خطاب کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ (پ ۲۶ ع ۴) اے لوگو ہم نے تم کو ایک مردوزن سے پیدا کیا ہے، اور تم کو خاندان وقبائل میں تقسیم کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے معزز اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے متقی ہے،

اور اسی حقیقت کو حدیث پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے۔كلكم من آدم وآدم من تراب لا فضل لعربي على أعجمي، ولا لأبيض على أسود، ولا لأسود على أبيض إلا بالتقوى، (مسند احمد) کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، کسی عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر، کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے ذریعے۔

برادران ملت! اسلام نے تو طبقاتی نظام کی جڑ ہی کاٹ دی، نسلی تفاوت کی بنیاد ہی ڈھادی، قومی تفاخر کی اصل ہی ختم کر دی ، اس کے بعد اس نے تمام انسان کو ایک جہت، ایک سمت ، ایک نظر یہ، ایک عقیدہ، ایک فکر کی طرف بلایا کہ انسان ہونے کے ناطے تم کو متحد ہو کر رہنے کے لئے تو حید ہی سب سے جامع طریقہ ہے، ایک خدا کی الوہیت کو تسلیم کر لو، اور ایک عقیدہ پر جم جاؤ اور ایک مذھب کو مان لو، تمہارے اندر یکجہتی پیدا ہو جائے گی، تم متحد ہو جاؤ گے، تم بنیان مرصوص بن جاؤ گے، جسدِ واحد بن جاؤ گے، تمام اختلافات ختم ہو جائیں گے، تمام جھگڑے مٹ جائیں گے۔

برادرانِ ملت! قومی یکجہتی سے متعلق جامع اصول اسکے سوا ممکن نہیں کہ دنیا کے تمام انسانوں کو بلا تفریق رنگ ونسل، بلا امتیاز زمان و مکان ایک سمت عطا کر دی جائے، ایک مرکز پر جمع کر دیا جائے، ایک خیال پر جما دیا جائے ، ایک مقصد پر متحد کر دی جائے، ایک محور پر لاکھڑا کر دیا جائے، وحدت و مساوات، اخوت ومحبت، اتحاد و اتفاق کا ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ ہر فرد دوسرے فرد کا ہم خیال بن جائے، افکار و نظریات، خیالات و رحجانات، تصورات و احساسات تک میں یکسانیت پیدا ہوجائے،

مگر اسلام نے ایسا کردکھایا، اس کے روح پرور پیغام وحدت و توحید نے قومی یکجہتی پیدا کردی، فکری پکجہتی پیدا کردی، عملی یکجہتی پیدا کردی، تمدنی یکجتی پیدا کردی ، ثقافتی یکجہتی پیدا کردی ، ایمانی یکجہتی پیدا کردی، اور عرب وعجم ، چین وفارس، ایرانی و طورآنی ، مصری و سوڈانی ، رومی دیونانی کو ایک امت بنا دیا، ایک پیکر میں ڈھال دیا، ارشاد باری: إن هذه أمتكم أمة واحدة وأنا ربكم فاتقون، کا جانفزا، روح پرور، ایمان افروز، حیات بخش اعلان عام کر دیا۔

برادرانِ ملت! یہی اسلام کی وہ عالمگیر اخوت اور دعوتِ اسلام کی وحدت تھی جس نے زمین کے دور دراز گوشوں کو ایک کر دیا تھا، اسلام نے ریگستانِ عرب میں ظہور کیا مگر صحراء افریقہ یں اسکی پکار بلند ہوئی ، اس کی صدا جبلِ بو قبیس کی گھاٹیوں سے اٹھی مگر دیوار چین سے صدائے اشهد ان لا اله الا اللہ کی بازگشت گونجی، آفتابِ رسالت فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا مگر اس کی کرنوں نے یورپ کو منور کیا، پیغام توحید بلدِ امین سے نشر ہوا اور اس کی صدا ہندوستان تک پہونچی،

اللہ اکبر کی آواز صحرائے حجاز سے گونجی تھی مگر جبلِ طارق کی چوٹیوں سے ٹکرائی، وحدت ومساوات کا عمل وادی بطحاء سے شروع ہوا تھا اور اس کا دائرہ عمل مشرق و مغرب تک پھیلتا چلا گیا، قومی یکجہتی کی ایک نئی تاریخ کا آغاز ہوا اور اس کے صفحات طویل ہوتے گئے، اسلام نے اقوام و ملک کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیا، اس نے امیر و غریب حاکم و محکوم، مالک و مزدور، غلام و آقا، گورے کالے، عربیعجمی، ہندی چینی کے فرق کو مٹاکر ایک امت کو جنم دیا جس کا ترانہ وحدانیت لا الہ الا اللہ تھا، جس کا نعرہ مساوات ، إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃ تھا،

اسلام نے ایمان و توحید کی اساس پر دنیا کے تمام انسان کو ایک جھنڈے تلے جمع کر دیا، انکے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ قائم کر دیا، ایک ربط پیدا کردیا، ایک تعلق پیدا کر دیا، لہذا دنیا کے تمام رشتے ٹوٹ سکتے ہیں مگر یہ رشتہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا، ممکن ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے سے روٹھ جائے، بعید نہیں کہ ایک ماں اپنی گود سے بچے کو الگ کردے، ہو سکتاہے کہ ایک بھائی دوسرے بھئی کا دشمن بن جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا کے تمام عہدہ مودت ، اخوت اور نسل کے باندھے ہوئے پیمانِ وفا و محبت ٹوٹ جائیں مگر جو رشتہ ایک چین کے مسلمانوں کو افریقہ کے مسلمانو سے، ایک عرب کے بدو کو تاتار کے چرواہے سے، ایک ہندوستان کے نومسلم کو مکہ کے قریشی سے یکجان کرتا ہے، دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اسے توڑ سکے، اس زنجیر کو کاٹ سکے جس خدا کے ہاتھوں نے انسانوں کے دلوں کو ہمیشہ کےلئے جکڑ دیا، قوموں کو جوڑ دیا، نسلوں کو ملا دیا، ملتوں کو متحد کردیا ہے اور سب کو ایک جہت پر لگا دیا ہے، ممکن نہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے توڑ دے۔

وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمین۔

اسلام کیا ہے؟

اسلام نام ہے زندگی میں ہر جگہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے ، لین دین کرتے، ہر وقت یہ خیال رکھنا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے اور ہمارے پیارےآقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کس طرح کیا ہے؟

 عظیم شخصیات کے بہترین اردو اقوالِ زرریں

Leave a Comment