ماہ ربیع الاول کی فضیلت – Mahe Rabi ul Awwal Ki Fazilat

ماہ ربیع الاول کی فضیلت – Mahe Rabi ul Awwal Ki Fazilat

بعثت سے ماقبل کے احوال تاریخی واقعات . نبی کریم نے کی ماقبل بعثت کی زندگی کے کچھ نمایاں واقعات مندرجہ

ذیل ہیں: (۱) آپ ﷺ کی پیدائش قریش کے اس گھرانے میں ہوئی جو حسب و نسب میں سب سے اعلی تھا، وہ قبیلہ قریش کی سب سے اعلی فرع بنو ہاشم تھے، قبیلہ قریش عرب کا سب سے اشرف و اعلی قبیلہ تھا ، نسب اور مرتبے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو میرے لیے ان میں سے سب سے اعلی جماعت کو منتخب فرمایا، پھر قبائل میں سب سے بہتر قبیلہ میرے لیے چنا، پھر گھروں میں سب سے زیادہ شریف النسل گھر میں مجھے پیدا فرمایا ، اس لیے میں اپنی ذات اور گھر کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے اعلی ہوں۔ (ترمذی)

آپ ﷺ کے حسب ونسب کی شرافت کی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے دیگر چیزوں میں تو آپ پر بہتان تراشی اور افترا پردازی کی لیکن نسب کے سلسلے میں تاہنوز کسی نے آپ پر انگشت نمائی نہیں کی۔

(۲) آپ یہ بچپن ہی سے یتیم تھے، آپ کے والد عبداللہ کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی والدہ کا آپ سے صرف دو ماہ کا حمل تھا، پھر جب آپ کی عمر چھ سال ہوئی تو آپ کی والدہ آمنہ بھی آپ کو داغ مفارقت دے گئیں، اس طرح آپ بچپن میں ماں باپ کی شفقتوں اور محبتوں سے محروم رہے، والدہ کے بعد دادا عبدالمطلب نے آپ کی کفالت کی لیکن جب آپ ﷺ کی عمر آٹھ سال ہوئی تو وہ بھی آپ کو چھوڑ کر اس دار فانی سے کوچ کر گئے ، اس کے بعد کی کٹھن گھڑیوں میں چچا ابو طالب نے آپ کی تربیت کی ذمہ داری لی، اور آپ کو پروان چڑھایا۔ آپ کی قیمی کی طرف قرآن کریم میں اشارہ موجود ہے: ﴿أَلَمْ يَجِدُكَ يَتِمَّا فَاوَى ﴾ کیا اس نے تمہیں یتیم نہیں پایا تھا، پھر ( تمہیں ٹھکا نادیا؟) (الضحی ۲) (۳) آپ ﷺ نے اپنے بچپن کے ابتدائی چار سال قبیلہ بنی سعد میں بسر کیے، اس ماحول کا آپ پر اتنا اچھا اثر مرتب ہوا کہ آپ جسم وجثہ کے اعتبار سے نہایت قوی ہوئے ، زبان سے فصاحت و بلاغت کے چشمے پھوٹنے لگے، کم عمری ہی میں بہترین گھوڑ سواری کرنے لگے، اسی طرح شہر کے شور وشغب سے دور، صاف ستھری ہواؤں اور سورج کی مقوی روشنی سے معمور فضا میں آپ کی دیگر صلاحیتیں بھی نکھر گئیں۔ ۴) شرافت و نجابت کے آثار بچپن ہی سے آپ پر نمایاں تھے، چہرے

پر ذہانت و فراست کے ایسے نقوش ہویدا تھے کہ جو بھی آپ کو دیکھتا؛ وہ آپ کا

گرویدہ ہو جاتا، جب آپ ﷺ اپنے بچا کے ساتھ ان کی نشست پر بیٹھے تو پنچا کا کوئی بچہ آپ کے برابر نہ بیٹھتا، آپ صغرسنی میں اپنے دادا کی مسند پر بیٹھے ہوتے اور آپ کے کوئی چیچا آپ کو مسند سے اتارنا چاہتے تو عبدالمطلب فرماتے: اس کو بیٹھنے دو ، اس کا مستقبل تابناک ہوگا۔ (۵) آپ ﷺ اپنی جوانی کے آغاز میں اہل مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض پر اتے تھے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ، آپ نے بھی؟ فرمایا: ہاں، میں نے بھی چند سکوں کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرائی ہیں۔ جب آپ کی عمر پچیس سال ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال سے کچھ اجرت کے عوض تجارت کی ۔

(1) آپ ﷺ نے مکہ کے نوجوانوں کے ساتھ لہو ولعب اور دیگر عبث کاموں میں کبھی شرکت نہیں کی ،اللہ نے ان خرافات سے فطری طور پر آپ کو محفوظ رکھا تھا، سیرت کی کتابوں میں یہ قصہ بہ کثرت ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے ملکہ کے کسی گھر سے گانے کی آوازسنی، جو کسی نکاح کی مناسبت سے بج رہا تھا، آپ نے اس میں شرکت کرنی چاہی تو اللہ نے آپ پر نیند کو طاری کر دیا، پھر آپ اسی وقت بیدار ہوئے جب سورج کی تیز شعائیں آپ کے جسم اطہر پر لگیں، اسی طرح آپ نے اپنی قوم کے ساتھ بت پرستی میں بھی شرکت نہیں کی ، اور نہ بتوں کے نام پر ذبح کیے کسی جانور کو نوش فرمایا ، شراب و کبھی منہ تک نہیں لگایا ، جوا سے ہمیشہ محفوظ رہے اور بخش کلامی سے بے انتہاء دورر ہے۔

۷) آپ سن شباب میں انتہائی زیرک اور عقل مند تھے، جس کا اندازہ اس وقت ہوتا جب کوئی آپ سے کسی کام کے سلسلے میں رائے طلب کرتا ، مندرجہ ذیل واقعے سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے: ایک مرتبہ مکہ میں اس قدر خطر ناک سیلاب آیا کہ اس سے کعبتہ اللہ کی بنیادیں ہل گئیں، اہل مکہ نے ایسی مشورے کے بعد طے کیا کہ اس کی عمارت شہید کر کے از سر نو تعمیر کی جائے ، چناں چہ اس پر عمل کیا گیا، جب حجر اسود کو نصب کرنے کا موقع آیا تو اس میں سخت با ہمی اختلاف ہو گیا کہ اس عظیم کام کو کون سر انجام دے گا، ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ یہ شرف اس کے حصے میں آئے ، معاملہ اتنا سنگین ہو گیا کہ تمام قبائل لڑنے پر اتر آئے۔ پھر کچھ دانشوروں کی طرف سے یہ مشورہ طے پایا کہ باب بنی شیبہ سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو گا اس کا فیصلہ اس معاملے میں قبول کیا جائے گا، چناں چہ سب سے پہلے نبی کریم میں داخل ہوئے ، جب ان لوگوں نے آپ کو دیکھا تو پکار اٹھے : یہ شخص امین ہے، اس کا فیصلہ ہمیں منظور ہے، جب آپ کو پوری بات تفصیل سے بتائی گئی تو آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا جس پر تمام فریق راضی ہو گئے ، آپ نے اپنی چادر بچھائی، حجر اسود کو اٹھا کر اس پر رکھا، پھر یہ حکم صادر فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار چادر کا ایک ایک سرا پکڑ لے، اس طرح حجر اسود کو کعبتہ اللہ کے پاس لایا گیا، آپ نے اس کو اٹھا کر اپنے ہاتھوں سے کعبتہ اللہ کی دیوار میں نصب کر دیا، اس فیصلے پر سب راضی ہو گئے، اور اس طرح اللہ نے آپ کی فراست و ذہانت کی بنا پر عرب کے مابین خون کے بنے بہانے سے حفاظت فرمالی۔

آپ ﷺ اپنی قوم میں صادق وامین کے لقب سے مشہور تھے، حسن معاملات، وعدہ وفائی اور سیرت وکردار میں آپ کی مثال دی جاتی تھی، پورے قریش میں آپ کی بڑی نیک نامی تھی ، یہی وہ اسباب تھے جن کی بنا پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو بصرہ کی طرف جانے والے قافلے کے ساتھ اپنا تجارتی مال لے کر بھیجا اور یہ شرط لگائی کہ وہ آپ کو عام آدمی کے مقابلے میں دو گنا نفع دیں گی ، جب آپ تجارت کر کے واپس آئے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ نے آپ کی امانت اور اخلاص کے بارے میں بتایا، اس سفر میں خدیجہ کے مال میں بے انتہا نفع ہوا، جس کی بنا پر انہوں نے آپ ملے کے لیے جتنا اجر ملے کیا تھا اس سے کئی زیادہ دیا۔ آپ کی امانت وصداقت کو دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے نکاح کی تمنا ظاہر کی، جسے آپ نے قبول فرمالیا، حالاں کہ آپ ان سے پندرہ سال چھوٹے تھے، پہلی وحی آنے کے بعد جب آپ ﷺے پر بشری گھبراہٹ طاری ہوئی تھی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے لیے بڑے تعریفی کلمات ارشاد فرمائے اور آپ کے کارناموں کا ان الفاظ میں اعتراف کیا قسم بخدا، اللہ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ضعیفوں اور کمزوروں کی مدد کرتے ہیں، بغریبوں کو کھا کر کھلاتے ہیں، مہمان نوازی آپ کا شیوہ ہے، آپ آنے والے مصائب روزگار میں لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

(۹) آپ نے مکہ سے باہر دو سفر فرمائے ، ایک تو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ، جب کہ آپ کی عمر ۱۲ سال تھی ، اور دوسرے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال میں تجارت کی غرض سے۔ دونوں سفر بصرہ کے شہر شام کی طرف ہوئے ، دونوں میں آپ نے شام کی خبریں سنیں ، راستے میں آنے والے شہروں کے احوال کو بہ غور دیکھا اور ان میں بسنے والوں کی عادات کو نوٹ فرمایا۔

(۱۰) بعثت سے کئی سال پہلے آپ کی یہ کیفیت ہوگئی تھی کہ آپ کو غار حراء میں رہنا اچھا لگتا تھا، یہ غار ایک پہاڑ کے دامن میں ہے جو مکہ کے شمال مغرب میں واقع ہے، آپ ایک ایک مہینہ اور خصوصا رمضان میں وہاں رہ کر اللہ کی نعمتوں اور مخلوقات پر غور وفکر کرتے ، آپ کی عادت میں یوں ہی استمرار رہا، تا آں کہ آپ پر اولین وحی کا آغاز ہوا۔

12 ربيع الاول 2023 عید میلاد النبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کب ہے؟

 16/ ستمبر 2023 بروز سنیچر ماهِ ربیع الاول کا چاند نظر آگیا، جس کی بنا پر رؤیتِ ہلال کمیٹیوں کی جانب سے اعلان کر دیا گیا ہے کہ آئندہ کل 17ستمبر بروز اتوار کو ربیع الاول کی پہلی تاریخ ہوگی۔ اس حساب سے 28 /ستمبر بروز جمعرات کو ربیع الاول کی 12 تاریخ (عید میلاد النبی )ہوگی انشاءاللہ العزیز۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کس سن عیسوی کو ہوئی؟

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عیسوی کلینڈر کے مطابق 22 اپریل 571 عیسوی، یکم جیٹھ 628 بکرمی پیر کے دن صبح صادق کے وقت ہوئی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کب ہوئی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات شریفہ کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے، مشہور تو یہی ہے کہ ۱۲/ ربیع الاول کو وفات ہوئی ہے؛ لیکن یہ قول صحیح نہیں؛ بعض حضرات نے یکم ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دی اور بعض نے ۲/ ربیع الاول کو۔

Leave a Comment