عید میلاد النبی پر تقریر – Eid Milad un Nabi Speech in Urdu

عید میلاد النبی پر تقریر – Eid Milad un Nabi Speech in Urdu

بعثت سے لے کر حبشہ کی طرف ہجرت تک کے بیان میں

اس دورانیے میں مندرجہ ذیل واقعات رونما ہوئے: (۱) آپ ﷺ پر وحی کا نزول : جب آپ ﷺے چالیس سال کے ہوئے تو ۷ ار رمضان کو پیر کے دن حضرت جبریل علیہ السلام وحی لے کر آئے ، صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وحی کی کیفیت بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں: سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو نیند میں اچھے خواب دکھائے گئے ، آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صاف ستھرا ہوتا، پھر آپ خلوت نشینی کو پسند کرنے لگے ، آپ غار حرا میں جا کر کئی کئی راتیں عبادت کرتے تھے، جاتے وقت تو شہ بھی رکھ لیتے ، پھر تو شہ ختم ہونے کے بعد واپس آتے اور اسی طرح پھر دوبارہ توشہ لے کر کئی دنوں کے لیے تشریف لے جاتے۔

سلسلہ یونہی دراز تر ہوتا رہا، دن رات میں اور رات دن میں تبدیل ہوتے رہے، کہ ایک دن آپ پر غار حراء میں وحی کا نزول ہوا، حضرت جبریل علیہ السلام آکر کہنے لگے : پڑھو، آپ نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ، آپ میت ہے فرماتے ہیں: جبریل نے مجھ کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر دبوچا جس سے مجھے بے

انتیا مشقت محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ کر دوبارہ کہا: پڑھو، میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوبارہ انہوں نے مجھے سینے سے لگا کر دبوچا، جس سے مجھے بہت زیادہ تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا، اور کہا: پڑھو، پھر میں نے وہی جواب دیا، تو انہوں نے تیسری مرتبہ ویسا ہی سلوک کیا اور کہا: اقرا باسم رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقَ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بالقَلَم عَلَّمَ الإِنسَانَ مَالَمُ يَعْلَمُ (پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا ، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے، جس نے قلم سے تعلیم دی ، انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا ) ( اعلق استا۵) پھر آپ مہ اس حال میں گھر لوٹے کہ آپ کا دل طبعی خوف سے معمور تھا، آپ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر کہنے لگے، مجھے چادر اوڑھاؤ، انہوں نے آپ کو چادر اوڑھائی تو کچھ دیر بعد آپ کو اطمینانی کیفیت حاصل ہوئی ، آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے سارا ماجرا کہہ سنایا، اور کہا کہ مجھے اپنی جان کے جانے کا ڈر ہے ، حضرت خدیجہ یہ سن کر کہنے لگیں قسم بخدا، اللہ آپ کو بھی رسوا نہ کرے گا ، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ضعیفوں اور کمزوروں کی مدد کرتے ہیں، غریبوں کو کما کر کھلاتے ہیں ، مہمان نوازی آپ کا شیوہ ہے، آپ آنے والے مصائب روزگار میں لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو رشتہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چا زاد بھائی تھے، انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نصرانیت کو اختیار کیا تھا، وہ عبرانی زبان لکھتے اور بولتے تھے، انہوں نے انجیل کا ایک حصہ عبرانی زبان میں منتقل کر دیا تھا، کبرسنی کی وجہ سے ان کی بینائی چلی گئی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان سے کہنے لگیں: اے میرے چچا کے بیٹے ! آپ کے بھتیجے کے احوال سینے ، ورقہ نے کہا: بھتیجے، تمہارے ساتھ کیا احوال پیش آئے ؟ آپ ﷺ نے ان سے جو کچھ پیش آیا تھا سب کہہ سنایا، آپ کی بات سن کر ورقہ کہنے لگے: یہ وہی وحی لانے والے جبریل ہیں جو حضرت موسی علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے ، کاش میں اس وقت زندہ اور طاقت ور جوان ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو اپنے شہر سے نکال باہر کرے گی ، آپ نے فرمایا: کیا میری قوم مجھ کو مکہ سے نکال دے گی ؟ ورقہ نے کہا: ہاں، جو شخص بھی اس طرح کے پیغام کو لے کر اٹھتا ہے جیسا آپ پر نازل ہوا تو لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں ، اگر وہ دن میری زندگی میں آئے تو میں آپ کا بھر پور ساتھ دوں گا لیکن ورقہ کا کچھ ہی دنوں کے بعد انتقال ہو گیا اور وحی کچھ دنوں کے لیے موقوف ہوگئی۔ ابن ہشام کی روایت ہے: آپ ﷺ غار حراء میں ریشم کے بستر پر سوئے ہوئے تھے، جس میں ایک کتاب رکھی ہوئی تھی ، اسی اثناء میں جبریل آکر

کہنے لگے پڑھو۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے پڑھا، پھر وہ فرشتہ وہاں سے چلا گیا اور میں نیند سے بیدار ہو گیا، مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں نے اپنے دل میں کچھ لکھ لیا ہو، پھر میں غار سے نکلا، ابھی پہاڑ کے درمیان ہی پہنچا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی: اے محمد آپ اللہ کے رسول ہیں، اور میں جبریل ہوں، میں نے آسمان کی طرف نظر کی تو دیکھا کہ جبریل ایک صاف ستھرے قدموں والے آدمی کی شکل میں آسمان کے افق میں نظر آرہے تھے ، اور یہ کہے جارہے تھے : اے محمد ، آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبریل ہوں، میں رک کر بغیر ملے ان کو دیکھنے لگا، پھر میں نے ان سے نظریں ہٹا کر آسمان کے مختلف گوشوں میں نظر دوڑائی تو میں جس گوشے میں دیکھتا وہ مجھے وہاں اسی طرح نظر آتے ، میں اسی طرح آگے پیچھے ہوئے بغیر وہاں کھڑا رہا، جب کافی دیر ہوگئی تو حضرت خدیجہ نے مجھے تلاش کرنے کے لیے بعض کارندوں کو روانہ فرمایا الخ۔ (۲) تمام لوگوں میں سب سے پہلے آپ ﷺ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہونے والی آپ کی زوجہ خدیجہ ہیں ، بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے آپ کے چازاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں جن کی عمر اس وقت دس سال تھی ، آزاد کردہ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے زید بن حارثہ ہیں، اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت بلال رضی اللہ عنہ ایمان لائے ، اور مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حق کا کلمہ پڑھا،

آپ اللہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ پیر کے دن شام کے وقت نماز ادا کی ، وہ آپ کی نماز کا پہلا دن تھا، اس وقت تک دور کعتیں صبح میں اور دو

رکعتیں شام میں فرض تھیں۔ ۳) پھر صحیح قول کے مطابق چھ ماہ کے لیے وحی کا سلسلہ موقوف ہو گیا، جس سے آپ ﷺ بہت غمگین اور پریشان ہوئے ، آپ کی یہ کیفیت ہوگئی کہ آپ پہاڑوں کی طرف نکل جاتے ، اور ان کی چوٹیوں سے نیچے کودنے کی کوشش کرتے ، یہ سوچ کر کہ اللہ تعالی نے آپ کو رسالت کا شرف بخشنے کے بعد بے یار

و مددگار چھوڑ دیا ہے، لیکن پھر کچھ دنوں بعد وحی کا سلسلہ دوبارہ بحال ہو گیا۔ بخاری میں ہے: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ہے نے ارشاد فرمایا: ایک مرتبہ میں چل رہا تھا کہ اچانک آسمان سے ایک آواز سنائی دی، میں نے اپنی نگاہ اٹھائی تو دیکھا کہ وہ فرشتہ جو غار حراء میں آیا تھا آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، میں اس سے طبعا مرعوب ہو گیا، میں گھر لوٹا اور گھر والوں سے کہنے لگا کہ مجھے چادر اوڑھا دو، پھر اللہ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں: يا أيها المدثر الخ . (المدثر :1) اس وقت وحی کا سلسلہ دوبارہ جاری ہو گیا۔ (۴) آپ سے اس کے بعد ان لوگوں کو دعوت دینے لگے جن کی عقلوں پر آپ کو اعتماد تھا، یہ کام تقریبا تین سال ہوتا رہا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سمجھ دار اور زیرک سمجھے جانے والوں کی ایک بڑی تعداد اسلام میں داخل ہوگئی۔

ما الله (۵) جب اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں ہوگئی تو اللہ تعالی نے آپ کو حکم فرمایا کہ اب علانیہ دعوت دیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: فَاصْدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ وَاعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْن ) ( جس بات کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اسے علی الاعلان لوگوں کو سنادو، اور جو لوگ ( پھر بھی ) شرک کریں ، ان کی پر واہ مت کرو ) ۔ ( الحجر ۹۴۰) (1) اس کے بعد آپ میں اور نو مسلموں پر تکالیف کا سلسلہ شروع ہوا، مشرکین کو یہ بات ناگوار گزرتی تھی کہ آپ علیہ السلام ان کے کاموں کو بے وقوفانہ ٹھہراتے ہیں، ان کے معبودان کے نقائص بیان کرتے ہیں، اور ان کے پاس ایسا نیا دین لے کر آئے ہیں جس میں صرف ایک ایسے معبود کی عبادت کی جاتی ہے جسے نگاہیں نہیں دیکھ سکتی ، لیکن وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے، اور وہ انتہائی لطیف اور باخبر ہے۔ ے آپ سے اس دورانیے میں مومنوں کے ساتھ خفیہ طور پر حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر جمع ہوتے تھے ، وہ بھی اسی وقت اسلام لائے تھے، آپ ے ان کے سامنے قرآن کریم کی آیات پڑھتے ، اور اس وقت جو احکام نازل ہوتے ؛ ان کی تعلیم دیتے۔ صا الله

اس وقت آپ مہ کو حکم ہوا کہ آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا ئیں، چناں چہ آپ حکم کی تعمیل میں کو و صفا پر چڑھے، اور قریش کے ایک ایک

قبیلے کو پکار کر انہیں اسلام کی دعوت دینے لگے، بتوں کو چھوڑنے کا حکم دینے لگے، انہیں جنت کا لالچ دیا اور دوزخ کے عذاب سے ڈرایا، یہ سب سن کر ابو لہب کہنے

لگا: تیر استیا ناس ہو، کیا اسی لیے تو نے ہمیں جمع کیا ؟ ۹) قریش چاہتے تھے کہ کسی طرح آپ ﷺ کا قصہ پاک کر دیں، لیکن ابو طالب آڑے آئے ، اور آپ میے کو ان کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا، پھر قریش کے چلے جانے کے بعد وہ آپ سے کہنے لگے کہ آپ اپنی دعوت کے مشن میں تھوڑا توقف کر لیجے۔ آپ یہ سمجھے کہ چا ابوطالب آپ کی مدد سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں تو آپ نے اس وقت یہ مشہور بات کہی قسم بخدا! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج، اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں، تو بھی میں اسے اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک اللہ اس کو غالب نہ کر دے یا پھر میں ہی اس

کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید کر دیا جاؤں۔ ۱۰) اس کے بعد مشرکین کی تکالیف آپ پر اور آپ کے صحابہ پر اور بڑھ گئیں حتی کہ بعض مسلمان ان تکالیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے شہادت پاگئے۔ (1) جب قریش نے دیکھا کہ مومنین اپنے عقیدے پر ڈٹے ہوئے ہیں تو انہوں نے چاہا کہ آپ کے اپنی دعوت چھوڑنے کے بدلے جتنا مال چاہیں ہم دیدیں گے، یا حکومت کا مطالبہ کریں تو ہم وہ بھی آپ کے سپرد کر دیں گے۔ لیکن آپ نے ان کی تمام پیش کشوں کو جھٹلا دیا۔

۱۲) جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ قریش مسلسل سرکشی کر رہے ہیں، اور صحابہ کو اذیت پہنچا رہے ہیں تو آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا: اگر تم لوگ حبشہ چلے جاؤ تو بہتر ہوگا، اس لیے کہ وہاں کا بادشاہ ایسا ہے جو رعایا اور اپنے پاس پناہ گزیں لوگوں پر زیادتی نہیں کرتا، پھر جب اللہ اسلام پر کھل کر عمل کرنے کی راہیں ہم وار کر دے گا تو تم لوگ چلے آنا۔ چناں چہ پہلی مرتبہ بارہ مردوں اور چار عورتوں نے ہجرت کی، پھر جب انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے اور اسلام کے پھیل جانے کا علم ہوا تو وہ واپس آگئے لیکن چند ہی دنوں کے بعد یہ لوگ کچھ اور مومنین کے ساتھ واپس لوٹ گئے، اس دوسری ہجرت میں شامل لوگوں میں تر اسی مرد اور گیارہ عورتیں تھیں ۔ ۱۳) قریش نے آپ ﷺ ، بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کا بائیکاٹ کیا کہ ان کے ساتھ بیع و شراء نہ کی جائے ، ان خاندانوں میں نکاح نہ کیا جائے ، ان سے کسی طرح کا میل ملاپ نہ رکھا جائے اور ان کی صلح کبھی قبول نہ کی جائے ، یہ بائیکاٹ دو یا تین سال جاری رہا، آپ ﷺ اور آپ کے ساتھ موجود افراد نے بے انتہاء مشقتیں اٹھا ئیں، پھر قریش کے زیرک لوگوں کی کوششوں سے یہ بائیکاٹ ختم ہوا۔

 

Leave a Comment