دارالعلوم دیوبند کا قیام کن حالات اور کس پس منظر میں عمل میں آیا

دارالعلوم دیوبند کا قیام کن حالات اور کس پس منظر میں عمل میں آیا

darul uloom deoband ki tareekh in urdu:دارالعلوم دیوبند کا قیام کن حالات اور کس پس منظر میں عمل میں آیا، اس کا علم ایک تاریخ کے طالب علم کے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس کی تفصیلات نہایت ایمان افزا اور بصیرت افروز بھی ہیں۔ قیام دار العلوم کا واقعہ کسی وقتی جوش اور کسی اتفاقی حادثہ کی بنیاد پر نہیں پیش آیا، بلکہ یہ نہایت سنجید و، روحانی قوت کے پروردہ ایمانی فراست سے بھر پور اور عرفانی بصیرت سے منور اہل دل حضرات کی قوت فکر اور غیرت ایمانی کا مظہر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالی نے اس کوشش کو ظاہری بے سرو سامانی کے باوجود انتہائی کامیابی سے ہمکنار فرمایا اور ڈیڑھ سو سال سے زائد عرصہ گذر جانے کے بعد آج بھی یہ شجر طوبی پھل پھول رہا ہے اور چہار دانگ عالم میں اس کی عطر بیز خوشبو پھیل رہی ہے۔ 

تاریخ دارالعلوم دیوبند

دارالعلوم دیوبند (darul uloom deoband)محض ایک ادارہ نہیں تھا ، بلکہ ہندوستان میں مسلم عہد کے زوال اور قدیم تعلیم گاہوں کی بربادی کے بعد قائم ہونے والا ایک نمائندہ مرکز تھا جس کے نازک کندھوں پر ایمان و عقائد حقہ کے دفاع و تبلیغ، علوم دینیہ کی حفاظت واشاعت، مسلم تہذیب کی بقا وترقی اور اسلامی غیرت و عزت نفس کی صیانت کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان میں تبدیلی اقتدار اور تغیر حالات کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی بقا اور ترقی کی بھاری ذمہ داری دارالعلوم دیوبند اور اس کے نہج پر قائم ہونے والے مدارس و معاہد نے یہ حسن و خوبی ادا کی۔ یہی وجہ ہے جماعت دیوبند برصغیر میں اہل سنت والجماعۃ ، تعلیم کتاب وسنت اور مجاہدہ و ریاضت کی علم بردار جماعت تسلیم کی گئی اور دیوبند حق و راستی کا ایک استعارہ بن گیا۔

مغلیہ سلطنت کا زوال

مسلم حکومت کا زوال: انگریزی عروج سے پہلے ہندوستان نہایت دولت مند اور خوشحال ملک تھا۔ قدرت کی فیاضیوں نے اس سرزمین کو ایسے اسباب و ذرائع مہیا کیے تھے کہ دولت مندی، خوشحالی اور فارغ البالی یہاں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور تمام عالم میں اس کا شہرہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اور بہت سی قوموں کی لالچی نظریں اس کی طرف اٹھتی تھیں۔ چناں چہ ۱۶۰۰ء میں ہی برطانیہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی (East India Company)) قائم ہوگئی تھی۔ سترہویں صدی عیسوی میں انگریز سوداگروں کی ہندوستان آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور ان کو ملک میں تجارت کی اجازت مل چکی تھی۔ رفتہ رفتہ کلکتہ، بمبئی، مدراس کی بندرگا ہیں ان کے زیر اثر ہو گئیں۔

مسلمانوں کا عروج و زوال

ہندوستان کے حکمرانوں نے اپنی بے تعصبی اور دریا دلی سے انھیں بہت سے مراعات و حقوق سے نوازا اور انگریزوں نے نہایت عیاری ومکاری اور احسان فراموشی کے ساتھ رفتہ رفتہ اپنے خونیں پنجے گاڑنے شروع کر دیے۔ شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغل حکومت میں ضعف و اضمحلال پیدا ہو چلا تھا؛ اس لیے انگریزوں کوقدم جمانے کا بھر پور موقع مل گیا۔ 

۱۷۵۷ء تک یعنی تقریباً ڈیڑھ صدیوں تک انھوں نے تجارت کے ذریعہ اپنا تسلط اور رسوخ بڑھایا۔ اس کے بعد کمپنی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے جس میں انھوں نے جبر و اکراہ اور جنگ کے ذریعہ تسلط حاصل کرنا شروع کیا۔ اس دور کی تفصیلات نہایت دردانگیز اور وحشت ناک ہیں۔ ۱۷۵۷ء میں انھوں نے اپنی مکاریوں سے نواب سراج الدولہ سے جنگ چھیڑ دی اور پلاسی کے میدان میں اپنی عیارانہ چالوں سے چند گھنٹوں میں ہی اسے زیر کر دیا۔ اس جنگ سے کمپنی کے خالص تجارتی دور کا خاتمہ ہو گیا اور ایک نئے استعماری اور استحصالی دور کا آغاز ہوا۔

اس کے بعد ۱۷۶۴ء میں بکسر کی جنگ لڑی گئی، اس میں میر قاسم نواب بنگال کو شکست ہوئی اور اس کے ایک سال بعد ۱۷۶۵ء میں مغل حکمراں شاہ عالم ثانی ایک معاہدہ کے ذریعہ بنگال، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی انگریزوں کے ہاتھوں میں دینے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد انگریزوں کے قدم بڑھتے ہی گئے ۔ ۱۸۰۳ء میں انھوں نے دہلی پر حملہ کر کے مغل حکمران شاہ عالم ثانی کو گرفتار کر لیا اور اسے یہ معاہدہ لکھنے پر مجبور کیا گیا کہ مغل حکومت شہر اور اطراف دہلی تک رہے گی اور بقیہ ملک پر انگریز اور کمپنی کا تسلط رہے گا۔ پھر اس کے بعد رہی سہی کسر ۱۸۵۷ء کے خونین انقلاب میں پوری ہوگئی۔ انگریزوں نے آخری مغل حکمراں بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے رنگون جلا وطن کر دیا اور مغلیہ حکومت کی جگہ پہلے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا اور پھر برٹش راج قائم ہو گیا۔ 

انگریزوں نے ہندوستانیوں کی توہین و تذلیل، سماجی بر بادی، اخلاقی تباہی ، معاشی تنگ حالی اور علم سے محرومی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انھوں نے ہر لحاظ سے ہندوستان کو لوٹا اور اس ملک کوزوال و انحطاط کے آخری کنارے تک پہنچا دیا۔ انھوں نے ہندوستان کی ساری دولت لوٹ کر انگلستان پہنچادی اور اس ملک کو کنگال کر دیا۔ ان کی انسان دشمن اور استحصالی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں متعدد بار قبل اور بھکمری سے لاکھوں لاکھ انسان لقمہ اجل بن گئے۔

برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا

برطانوی تعلیمی پالیسی اور عیسائی مشنریوں کی یلغار : انگریزی عہد میں اولا کمپنی نے تعلیم کا کوئی نظم نہیں کیا۔ لیکن بعد میں انھوں نے جو تعلیمی پالیسی بنائی وہ اس کمیٹی کے صدر لارڈمیکالے کے مطابق اس کی روح یہ تھی کہ :

 ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان مترجم ہو اور سیاسی جماعت ہونی چاہیے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہو، مگر مذاق اور رائے، الفاظ اور سمجھ کےاعتبار سے انگریز ہو۔

 ان پالیسیوں کی وجہ سے یورپ کے پادریوں کے لیے وہ دروازہ کھل گیا جو ابتدائے عملداری سے بند تھا۔ چناں چہ پوروپ کے مختلف چرچوں نے اس مشن میں حصہ لیا اور عیسائی مذہب کے دونوں فرقوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے بے شمار کمیٹیاں، سوسائٹیز، چھاپہ خانے تعلیم گاہیں اور دیگر ادارے قائم کیے جن میں کام کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ انگریزی حکومت ان تبلیغی مساعی کی در پردہ حمایت اور مالی مدد کرتی تھی۔ فوجی افسران بھی مشنری ورک انجام دیتے تھے اور حکام اس سلسلے میں ذاتی اثر و رسوخ بھی استعمال کرتے تھے۔

فرنگی حکام مشن کے اسکولوں میں تعلیم کے لیے ترغیب دیتے تھے اور عملی طور پر ان مشنری اسکولوں میں انگریزی تعلیم کے نام پر عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مشنری اسکولوں اور کالجوں میں پائبل کی تعلیم لازمی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ عیسائی مبلغین کھلے عام مسلمانوں اور ہندؤوں کو چیلنج کرتے تھے اور بہت ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاتے تھے۔ کھلے عام جامع مسجد دہلی کو گرجا گھر بنانے اور پورے ملک کو عیسائی بنانے کے عزم کا اظہار کیا جاتا تھا۔ مسٹر مینگلس ممبر پارلیمنٹ نے دارالعوام میں خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے : 

خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہندوستان کی حکومت پر انگلستان کا قبضہ ہوتا کہ عیسی مسیح کی فتح کا جھنڈا ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لہرائے ۔ ہر شخص کو اپنی تمام قوت تمام ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہیے اور اس میں کسی قسم کا تساہل نہیں کرنا چاہیے ۔ 

غرضے کہ ہندوستان پر سیاسی غلبے کے ساتھ انگریزوں نے ہندوستانیوں کے دین و مذہب پر بھی ڈاکہ ڈالنے کا پورا انتظام کیا۔ کمپنی اور برطانوی حکومت کی سرپرستی میں عیسائی مبلغین کی کھیپ کی کھیپ ہندوستان کے طول و عرض میں پہنچ کر ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے میں مشغول ہوگئی۔

جنگ آزادی میں علماء دیوبند کا کردار

۱۸۵۷ء میں علماء کا قتل عام اور مدارس کی بربادی:  ۱۸۵۷ء میں پورے ملک میں آزادی کی جنگ لڑی گئی مگر اس جنگ میں ناکامی ہوئی، اس کے بعد ہندوستانیوں پر ظلم وستم اور وحشت و بربریت کا دور شروع ہو گیا۔ انگریزی مظالم کی خوں چکاں داستان اور روح فرسا واقعات سن کر کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے اور کیوں نہ آئے کہ انسانی اخلاق و اقدار سے عاری انگریزوں کا اصل نشانہ مسلمان ہی تھے کیونکہ حکومت مسلمانوں ہی سے چھینی تھی اور انھیں ان سے ہی انتہا پسندی کا شکوہ تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے قبل انگلستان کے گورنر جنرل نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہمارے اصل مخالف مسلمان ہیں۔

چنانچہ ۱۸۵۷ء کی جنگ میں ناکامی کے بعد انگریزوں نے جی بھر کر بدلہ لیا اور علماء اور مسلم رہنماؤں کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کو دبانے، کچلنے، تباہ و برباد کرنے اور بطور خاص علماء کو قتل کرنے میں ذرا بھی دریغ نہیں کیا۔ کناڈین پروفیسر آف ہسٹری ڈوگلس ایم پیئرس نے اپنی کتاب ‘انڈ یا انڈر کولونیل رول’ میں لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں پورے ہندوستان میں چھ ہزار برطانوی قتل ہوئے اور تقریبا آٹھ لاکھ ہندوستانی کام آئے۔

1857 کی بغاوت کہاں سے شروع ہوئی

 ہندوستان پر تسلط کے آغاز سے ہی کمپنی نے ملک کی تعلیم گاہوں کو ملیا میٹ کرنے اور تعلیم کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انھوں نے ۱۸۳۸ء میں موقوفہ زمینوں کو سرکاری قبضے میں لے لیا۔ ۱۸۵۷ء کے خونیں انقلاب کے وقت رہے سہے مدارس اور تعلیم گاہیں بھی ختم ہو گئیں۔ چناں چہ تھوڑے ہی عرصے میں جب تعلیم گاہیں مٹ گئیں اور ان کی جگہ دوسرے اسکول اور کالج وغیرہ قائم نہیں کیے گئے اور پرانے تعلیم یافتہ لوگ آہستہ آہستہ وفات پاگئے تو چاروں طرف ہندوستان میں جہالت اور ناخواندگی کا دور دورہ ہو گیا۔ چناں چہ آنریبل ایم الفنسٹن اور آنریبل ایف وارڈن گورنمنٹ کو پیش کردہ ایک متفقہ یادداشت میں لکھتے ہیں:

انصاف یہ ہے کہ ہم نے دیسیوں کی ذہانت کے چشمے خشک کر دیے، ہماری فتوحات کی نوعیت ایسی ہے کہ اس نے نہ صرف ان کی علمی ترقی کی ہمت افزائی کے لیے تمام ذرائع کو ہٹا لیا ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ قوم کے اصلی علوم بھی گم ہو جانے کا اور پہلے لوگوں کی ذہانت کی پیداوار فراموش ہو جانے کا اندیشہ ہے۔

 مسلمانوں کے مدارس اور علماء انگریزوں کی انتقامی کارروائی کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ؛ چناں بہت سے علما قتل کر دیے گئے اور مدارس کے اوقاف بند کر دیے گئے۔ خاص طور پر ہندوستان کے دارالسلطنت دہلی کی سب سے بڑی اسلامی درسگاہ حالات زمانہ اور انقلاب وقت کی زد میں آگئی۔ شاہ عبدالعزیزؒ اور شاہ محمد اسحاقؒ کے بعد اس مسند کو رونق بخشنے والے شاہ عبد الغنی مجددیؒ مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ دوسری طرف طریقت و سلوک کے امام وقت حضرت حاجی امداد اللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی انہی حالات کے باعث مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے۔ 

نتیجۃ سیاسی زوال، شکست، علماء کی بربادی اور تعلیم سے محرومی کی وجہ سے عام مسلمانوں کی مذہبی حالت نہایت ابتر ہو چکی تھی ۔ اسلامی شعائر رفتہ رفتہ روبہ زوال تھے۔ دینی علم اور تعلیم گا ہیں پشت پناہی ختم ہو جانے کی وجہ سے ختم ہورہی تھیں۔ علمی خانوادوں کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔ دینی شعور رخصت ہور ہا تھا اور جہل و ضلالت مسلم قلوب پر چھاتا چلا جارہا تھا۔ مسلمانوں میں پیغمبری سنتوں کے بجائے جاہلانہ رسوم ورواج ، شرک و بدعت اور ہوا پرستی زور پکڑ رہی تھی۔ مشرقی روشنی چھپتی جارہی تھی اور مغربی تہذیب و تمدن کا آفتاب طلوع ہور ہا تھا جس سے دہریت والحاد، فطرت پرستی اور بے قیدی نفس، آزادی فکر اور اباحیت کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں اور اس سے نگاہیں خیرہ ہو چلی تھیں۔ اسلام کی جیتی جاگتی تصویر آنکھوں میں دھندلی نظر آنے لگی تھی اور اتنی دھند لی کہ اسلامی خدو خال کا پہچانا بھی مشکل ہو چکا تھا۔

دارالعلوم دیوبند کی سنگ بنیاد | darul uloom deoband ki buniyad kisne rakhi

ان حالات کی وجہ سے مسلمانوں کے علم و عمل اور فکر و نظر میں جو اختلال اور رخنہ پیدا ہو گیا تھا اس کے انسداد کے لیے ناگزیر تھا کہ آئندہ کے لیے ایسے وسائل اختیار کئے جائیں جن کے ذریعہ سے اسلام، اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت کی جاسکے۔ بہر حال یہ فطری امر تھا کہ اس وقت کے علمائے کرام اور صلحائے عظام اپنے دل میں یہ خلش اور کسک محسوس کرتے رہے کہ علوم نبوت کے تحفظ ، دین کی حفاظت اور اس کے راستے سے ستم رسیدہ مسلمانوں کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت حاجی عابد حسین دیوبندیؒ وغیرہ کے حالات میں اس کڑھن کا ذکر ملتا ہے۔

چناں چہ کچھ بزرگوں کے دل میں یہ بات آئی کہ ایک درس گاہ قائم کی جائے ، جس میں علوم نبویہ پڑھائے جائیں اور مسلمانوں کی دینی ، معاشرتی اور تمدنی زندگی اسلامی سانچوں میں ڈھالی جائے جس سے ایک طرف تو مسلمانوں کی داخلی رہ نمائی ہو اور دوسری طرف خارجی مدافعت، نیز مسلمانوں میں صحیح اسلامی تعلیمات بھی پھیلیں اور ایمان دارانہ سیاسی شعور بھی بیدار ہو۔ چناں چہ اسی پس منظر میں دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا۔

دار العلوم (darul uloom deoband) قائم کرنے والے حضرات اکابر نے دار العلوم قائم کر کے اپنے عمل سے یہ نعرہ بلند کیا کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہوں اور دل و دماغ کے لحاظ سے اسلامی ہوں، جن میں اسلامی تہذیب و تمدن کے جذبات بیدار ہوں اور دین وسیاست کے لحاظ سے ان میں اسلامی شعور زندہ ہو۔“ اس کا ایک ثمرہ یہ نکلا کہ مغربیت کے ہمہ گیر اثرات پر بریک لگ گیا اور بات یک طرفہ نہ رہی بلکہ ایک طرف اگر مغربیت شعار افراد نے جنم لیا تو دوسری طرف مشرقیت نواز اور اسلامیت طراز حلقہ بھی برابر کے درجہ میں سامنے آنا شروع ہو گیا ، جس سے یہ خطرہ باقی نہ رہا کہ مغربی سیلاب سارے خشک و تر کو بہالے جائے گا بلکہ اگر اس کا ریلا بہاؤ پر آئے گا تو ایسے بند بھی باندھ دیئے گئے جو اسے آزادی سے آگے نہ بڑھنے دیں گے۔

تحریک دیو بند میں شامل علماء و بزرگان دین مسند الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کی درس گاہ کے وارث و امین تھے۔ تحریک شاہ ولی اللہ ہی کا جو سلسلہ حضرت شاہ عبد العزیز ، شاہ محمد اسحاق اور آخر میں شیخ عبد الغنی مجددی رحمہم اللہ سے جاری تھا ، ان حضرات کی رگوں میں اس تحریک کا خون دوڑ رہا تھا۔ تحریک ولی اللہی کے حضرات اکابرین نے مدرسہ رحیمیہ دہلی کو اپنی اصلاحی و انقلابی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا اور اس میں بیٹھ کر قوم کی علمی و فکری تعمیر وتشکیل کی خدمت انجام دی تھی۔ سلطنت مغلیہ کے سقوط اور ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے دوران یہ مدرسہ بھی شکست وریخت کا شکار ہوا، چناں چہ تحریک ولی اللہی کے وارث علماء و بزرگان نے دیوبند میں مدرسہ عربی اسلامی قائم کر کے اس وراثت کی حفاظت اور اشاعت کی ذمہ داری سنبھالی۔ 

یہ ہے (darul uloom deoband) دارالعلوم دیوبند کی بنیاد کا تاریخی پس منظر جس سے صاف ظاہر ہے کہ دارالعلوم دیوبند در اصل اسی شجر طوبی کی ایک سرسبز و شاداب شاخ ہے جسے امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنے با فیض مبارک ہاتھوں سے نصب کیا تھا تا کہ جہل و ضلالت اور شرک و بدعت کے بادسموم سے نڈھال واماندگان راہ اس کے حیات بخش سائے میں آکر زندگی کی تازگی و توانائی حاصل کر سکیں۔

عید میلاد النبی پر اشعار

Leave a Comment