نیا اسلامی سال کا پیغام – Speech on Islamic New Year in Urdu
نئے سال کا جشن اور مسلم معاشرہ
ترجمہ: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے جان لو۔ بڑھاپے سے پہلے تیری جوانی۔ اپنی صحت کو بیماری سے پہلے رکھیں۔ اپنی دولت کی غربت سے پہلے اپنا فارغ وقت گزارنے سے پہلے۔ موت سے پہلے آپ کی زندگی۔
(اس مضمون کو ابھی نہ پڑھے اس میں ابھی کام باقی ہے بہت سی غلطیا ہیں)
پیارے سامعین، شمسی کیلنڈر کے مطابق جنوری کا مہینہ شروع ہونے والا ہے، یعنی 2022 کا آغاز صرف چند گھنٹوں کی دوری پر ہے۔ اس موقع پر نوجوان نسل کافی پرجوش نظر آرہی ہے۔ کبھی کارڈز کا تبادلہ ہوتا ہے، کبھی فون وغیرہ پر مبارکباد دی جاتی ہے، کبھی نئے سال کے موقع پر نیا سال منایا جاتا ہے۔ اس وقت غیر مسلم اسے بڑے دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں لیکن افسوس۔ کہ ہمارے معاشرے کے زیادہ تر نوجوان ان غیر مسلموں سے پیچھے نہیں ہیں۔ اب یہ سوچ ذہن کو پریشان کر رہی ہے کہ اس نئے سال کو منانے کے لیے مسلمان ہونے کی شرائط کو بھلانے والے غیر مسلم اور مسلمان میں کیا فرق ہے؟
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیا سال منایا؟ کیا معزز ساتھیوں نے ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دی؟
کیا یہ رسم تبع تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں منائی جاتی تھی؟ کیا دیگر مسلم حکمرانوں نے ان کی تقریبات میں شرکت کی؟ تاہم اس وقت تک اسلام ایران، عراق، مصر، شام اور مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک میں پھیل چکا تھا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا کوئی بھی معقول آدمی نفی میں جواب دے گا۔ پھر آج مسلمان یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟
آخر اسے کس نے ایجاد کیا؟ کون سی قوم نیا سال مناتی ہے؟ کیوں منائیں؟
کیا آپ نے کبھی کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کا تہوار اس قدر جوش و خروش سے مناتے دیکھا ہے؟ نیا سال آچکا ہے اور ہر کوئی تہوار
مہینے کی کمائی کو دوسرے شہروں میں اڑانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ پھر دعوتیں دی جاتی ہیں، رقص و ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں شراب اور شباب کباب جمع ہوتے ہیں، مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے، کبھی بصارت کے متلاشیوں سے ذہن کی مراد تلاش کرتے ہیں اور کبھی ایس ایم ایس کے ذریعے کام ہو جاتا ہے۔
حالانکہ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں نئے سال کا استقبال کرتا ہے۔ اس تیاری میں اربوں کا ضیاع ہوگا۔ اگر ان فضول خرچیوں کو شامل کیا جائے تو تعجب ہوتا ہے کہ امت کی زندگی اور قیمتی وقت کہاں خرچ ہو رہا ہے۔ دن غروب آفتاب کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور رات شروع ہوتی ہے… یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہلال کا چاند نظر آتا ہے۔ کیا یہ لوگ رمضان، عید الفطر، عیدالاضحیٰ اسی طرح نہیں مناتے؟ ہاں اگر وہ جشن مناتے ہیں تو آج ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ شراب کی بوتلیں اٹھائے، چرس کے سگریٹ پیتے اور مزے سے ہاتھ اٹھا کر ناچتے اور گاتے نظر آتے ہیں۔ وہ کس بات پر خوش ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ آج ان کی زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے اور ان کے قدم قبر کے قریب ہیں۔ کیا وہ اس سے بے خبر ہیں؟ جواب نفی میں ہوگا۔ ہرگز نہیں… یہ سب جانتے ہیں… لیکن ان کی آنکھوں پر عیش و عشرت کا پردہ پڑا ہوا ہے جو انہیں کچھ اور دیکھنے نہیں دیتا…
سال 2021 چھٹی کا ہونے والا ہے کیونکہ دن اور رات میں تبدیلی کے آثار عقلمندوں کے لیے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آنے والے سال کے بارے میں سوچنے کے لیے کچھ وقت نکالا جائے، خواہ وہ عیسوی ہو یا قمری، کیوں کہ انسان اب بھی حالات سے مایوس نہیں ہوتا۔ ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور پچھلے سال نامکمل رہ جانے والے کاموں کو مکمل کرنے کے عزم کو زندہ کرتا ہے۔ سال کے حالات بتانے کی کوشش کریں۔ نیا سال قوموں کے ساتھ ساتھ افراد کی زندگی میں بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ قوموں کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے اور آنے والے سال میں بہتر کارکردگی دکھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ 2022 شروع ہو رہا ہے اور 2021 ختم ہونے والا ہے لیکن اگر ایسے مسلمانوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ یہ کون سا ہجری سال ہے تو اکثر لوگوں کا جواب افسوسناک ہو گا۔
یہ اس ملک میں نئے سال کی تقریبات اور تہواروں کی مختصر تفصیل تھی۔ نئے سال کو منانے کے مدبر، سنجیدہ اور مہذب طریقے پر بات کرنے سے پہلے یہ بات اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا یہ اتنا پرمسرت موقع ہے؟ ہاں یا نہ؟ آخر میں ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ “گیارہ بج کر اڑسٹھ منٹ” اور “بارہ بج کر” میں صرف ایک سیکنڈ کا فرق ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ایک گھنٹے میں دنیا میں کون سی عجیب تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ ہم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتے ہیں…؟ آئیے ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ نئے سال کی آمد ایک خوشی کا موقع ہے۔ ایک اور سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا ہماری مذہبی تعلیمات، پاکیزہ روایات اور صاف ستھری ثقافت ہمیں نئے سال کا استقبال اس طرح کرنے کی اجازت دیتی ہے؟ یقیناً جواب نفی میں ہوگا۔ یہ طرز عمل ہماری تعلیمات اور روایات سے میل نہیں کھاتا۔ ہماری مذہبی تعلیمات اور ہمارے اسلاف کی زندگی بتاتی ہے کہ کسی بھی کام کے شروع میں ہمیں اپنے خالق حقیقی کو یاد کرنا چاہیے۔ بحیثیت انسان اپنے سماجی، اخلاقی اور مذہبی فرائض کو لگن اور خلوص کے ساتھ نبھانے کا پابند ہونا چاہیے۔ نئے سال کے آغاز پر حقیقی مالک کے سامنے