صدقہ فطر کی مقدار 2025 – صدقہ فطر کے فضائل و مسائل
صدقہ فطر کی مقدار 2024: پیارے اسلامی بھائیوں! مفتی منیب الرحمن صاحب کی جانب سے، ذیل میں فطرانہ کی جو مقدار کا اعلان کیا گیا ہے، وہ پڑھ لیجیے،
گندم پونے دو کیلو کے حساب سے، فی آدمی کا فطرانہ، 300 رپے ادا کرنا ہوگا۔
جو، ساڑھے تین کیلو کے حساب سے، فی آدمی کا فطرانہ، 600 رپے ادا کرنا ہوگا۔
کھجور، ساڑھے تین کیلو کے حساب سے، فی آدمی کا فطرانہ 2400 رپے، ادا کرنا ہوگا۔
اورعمدہ کشمش، ساڑھے تین کیلو کے حساب سے، فی آدمی کا فطرانہ، 4400 رپے ادا کرنا ہوگا۔
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن، وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن اَمَّابَعد!
شوال کے چھ روزے
اللہ تعالی ایسی کریم ذات ہے کہ چھوٹے عمل کا بڑا اجر اور تھوڑے عمل کا زیادہ اجر عطا فرماتے ہیں، مہربانی کی انتہاء دیکھیے کہ ہمارے بعض ان اعمال کو بھی قبول فرمالیتے ہیں جن میں اخلاص کی جگہ کچھ ریاء کا کھوٹ شامل ہوتا ہے، اسی کرم کے سہارے ہم اس دنیا میں جی رہے ہیں اور آخرت میں اسی کا سہارا ہے !
اس ذات نے خوشیوں بھری عید نصیب فرمائی جس پر اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، چونکہ روزے کے اجر اللہ کریم نے از خود اپنے ذمہ لیا ہے اس لیے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہ عبادت پورا سال کرے، اللہ کریم کی شان کرم دیکھیے کہ رمضان کے بعد اگر کوئی شخص رمضان کے روزوں کے ساتھ شوال کے چھ روزے بھی رکھ لے تو اسے پورا سال روزہ رکھنے کا اجر عطاء فرما دیتے ہیں !
حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے ! (صحیح مسلم کتاب الصیام، باب استحباب صوم ستۃ ايام من شوال)
دوسری حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ ہی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے ! (مسند احمد حدیث نمبر 14302)
حدیث کی تشریح : پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو پورے زمانے کے روزے اور دوسری حدیث میں پورے سال کے روزے رکھنے کی مانند قرار دیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے تو الحسنة بعشر امثالها (ایک نیکی کا کم از کم اجر دس گناہ ہے) کے اصول کے مطابق اس ایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں، اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہو جاتے ہیں، گویا رمضان اور اس کے بعد چھ روزے شوال میں رکھنے والا پورے سال کے روزوں کا مستحق بن جاتا ہے، اس سے مذکورہ حدیث کا مطلب واضح سمجھ میں آتا ہے، گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے نیز اگر مسلمان کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ رمضان کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری ہو، اس وضاحت سے حدیث مذکور کا مضمون یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے بالکل واضح ہو جاتا ہے، لہذا کوشش کرنی چاہیے کہ اس فضیلت کو حاصل کر لیا جائے !
چند ضروری مسائل
مسئلہ نمبر 1) اگر کسی کے ذمہ رمضان کے روزے ہوں تو احتیاطا پہلے ان روزوں کی قضاء کی جائے، بعد میں شوال کے بقیہ دنوں میں ان چھ روزوں کو رکھا جائے ! (نہایۃ المحتاج جلد 10 صفحہ 310 باب فی صوم التطوع)
مسئلہ نمبر 2) شوال کے یہ چھ روزے عید کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں بلکہ عید کے دن کے بعد جب بھی چاہیں رکھ سکتے ہیں، بس اس بات کا اہتمام کر لیا جائے کہ ان چھ روزوں کی تعداد شوال میں مکمل ہو جانی چاہیے ! (شرح النقایۃ جلد 2 صفحہ 215 الایام التی یستحب صومھا)
اللہ کریم ہمیں اپنی رضاء حاصل کرنے کے لیے اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کی توفیق عطاء فرمائے اور اپنے کرم سے ان کو قبول بھی فرمائے. آمین بجاہ النبی الصادق الامین ! والسلام
واٰخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
از قلم متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ
ایک سبق آموز کہانی
ایک عورت سڑک پر ایک آدمی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے؛ “معاف کیجئے جناب، میں ایک چھوٹا سا سروے کر رہی ہوں، کیا میں آپ سے کچھ سوال کر سکتی ہوں؟”
آدمی نے کہا جی بالکل
عورت نے کہا: فرض کریں کہ آپ بس میں بیٹھے ہیں اور ایک خاتون بس میں سوار ہوئی اور اس کے پاس سیٹ دستیاب نہیں ہے، کیا آپ اس کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے؟
آدمی نے کہا: نہیں۔
اس عورت نے اپنے پاس موجود پیپر پر نظر دوڑاتے ہوئے “بےادب” کے خانہ پر ٹک کرتے ہوئے دوسرا سوال کیا: اگر بس میں سوار خاتون حاملہ ہو تو کیا آپ اپنی سیٹ چھوڑ دیتے؟
آدمی نے کہا: نہیں۔
اب کی بار “خود غرض” پر ٹک کرتے ہوئے اگلا سوال کیا: اور اگر وہ خاتون جو بس میں سوار ہوئی وہ ایک بزرگ خاتون ہوں تو کیا آپ اسے اپنی سیٹ دیں گے؟
آدمی نے کہا: نہیں۔
عورت نے کہا: (غصے سے) تم ایک نہایت خود غرض اور بے حس آدمی ہو جس کو خواتین کا ، بڑے اور ضعیف افراد کے آداب نہیں سکھائے گئے یہ کہتے ہوئے عورت آگے چلی گئی۔
پاس کھڑے دوسرا آدمی جو یہ بات چیت سن رہا تھا، اس بندے سے پوچھتا ہے کہ اس عورت نے تمہیں اتنی باتیں سنائیں تم نے کوئی جواب کیوں نہیں دیا ؟
تو اس آدمی نے جواب دیا: “یہ عورت اپنی چھوٹی سوچ اور آدھی معلومات کی بنا پر سروے کر کے لوگوں کا کردار طے کرتی پھر رہی ہے، اگر یہ مجھ سے سیٹ نا چھوڑنے کی وجہ پوچھتی تو میں اسے بتاتا کہ میں ایک “بس ڈرائیور” ہوں۔۔
ھمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہی ھے کہ ھم ادھوری معلومات سے ھی دوسروں کو جانچنے کی کوشش کرتے ھیں